سینکڑوں بے قرار پھرتے ہیں
طالبِ وصلِ یار پھرتے ہیں
ان کے مُشتاق اُن کے دیوانے
ہر طرف بے شُمار پھرتے ہیں
دھُوم بھی ہے دُہائی بھی اُن کی
کرکے سولہ سِنگھار پھرتے ہیں
پھول کیا سر اُٹھا کے بات کریں
باغ میں گُل عذار پھرتے ہیں
نام سُن کر مِرا وہ کہنے لگے
ایسے ویسے ہزار پھرتے ہیں
مُجھ کو ہو خاک اِعتِبار اُن پر
قول سے بار بار پھرتے ہیں
چاند سُورج ہیں اُن کے وارفتہ
رات دِن بے قرار پھرتے ہیں
اُن کے کوچے میں ایک آدھ نہیں
پاسباں تین چار پھرتے ہیں
جلوہء یار کی تمنّا میں
لوگ دیوانہ وار پھرتے ہیں
اُن کی مَحفِل سے لَوٹنے والے
لُوٹ کر ہر بہار پھرتے ہیں
یہ ہے توہینِ مےکدہ ساقی
تشنہ لب میگُسار پھرتے ہیں
اے نصیؔر اُن کی چاہ میں لاکھوں
کھو کر صبر و قرار پھرتے ہیں۔۔۔!
سید نصیر الدین نصیرؔؒ
Comments
Post a Comment